ایک تحقیق کے مطابق تقریباً تیس فیصد ترک نژاد باشندے جرمنی اور ترکی دونوں کو اپنا گھر سمجھتے ہیں جبکہ تقریباً اڑتالیس فیصد کے نزدیک صرف ترکی ہی ان کا گھر ہے۔
لیلیٰ جوپلو کا ترکی میں اپنا گھر بنانے کا خواب چند ہی منٹوں میں چکنا چور ہو گیا۔ لیکن انہیں اور ان کے شوہر تحسین کو یہ احساس ہونے میں ہفتوں لگے۔ اڑتالیس سالہ لیلا جرمنی میں پیدا ہوئیں اور نارتھ رائن ویسٹ فیلیا صوبے کے ایک چھوٹے سے قصبے گیلزن کِرشن ہورسٹ کی ایک بیکری میں تیس سال تک کام کرتی رہیں۔
ان کے شوہر کا تعلق ترکی کے شہر آدیامان سے ہے، جو فروری میں ترکی اور شام میں آنے والے زلزلوں سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے شہروں میں سے ایک ہے۔ تحسین جوپلو شادی کے بعد تیس سال قبل جرمنی آ گئے تھے۔ انہوں نے چند سال قبل آدیامان کے باہر گول باشی میں ایک گھر خریدا۔ جرمنی میں بہت سے ترک نژاد لوگوں کی طرح اس جوڑے نے بھی اپنی ریٹائرمنٹ اپنے آبائی ملک میں گزارنے کا خواب دیکھا اور اپنی تمام بچت ایک دن تحسین کے خاندان کے قریب رہنے کے لیےوقف کر دی۔
لیکن پھر چھ فروری کی وہ صبح آئی، جب زلزلے کے شدید جھٹکو ں نے ترکی کو ہلا کر رکھ دیا اورآدیامان کے ایک چھوٹے سے شہر میں سو سے زیادہ جھٹکے محسوس کیے گئے۔ ان زلزلوں نےگول باشی کو تباہ کر دیا۔ جوپل ہاؤس بھی بری طرح متاثر ہوا اور اب اسے گرایا جانا ہے۔
تحسین جوپلو نے کہا،”مجھے نہیں لگتا کہ میرے پاس شہر کی تعمیر نو کو دیکھنے کے لیے کافی وقت ہے۔ ہم اب اپنی ریٹائرمنٹ اپنے آبائی شہر میں گزارنے کا ارادہ نہیں رکھتے۔ اگرچہ ہم نیا گھر خریدنا چاہیں تو ہمارے پاس اس کے لیے کافی رقم نہیں ہے۔ جرمنی میں رہنا مہنگا ہو گیا ہے، ہم نیا گھر نہیں خرید سکتے۔ ہم نے ان تمام سالوں میں جو پیسہ بچایا وہ ختم ہو گیا ہے۔‘‘
وہ کہتے ہیں کہ انہیں اب تک کوئی امداد نہیں ملی اور نہ ہی وہ اس کی توقع رکھتے ہیں۔
